بدھ، 6 جون، 2018

زکوٰۃ سونے کے اعتبار سے نکالنی ہے یا چاندی؟

🌴🍃 *بِسْــمِ اللهِ الرَّحْـمـنِ الرَّحِــيـْم* 🍃🌴

                  📚 *فقھی مسائل( شافعی )*📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
                          📁 *سوال نمبر : ١٣٤*📁
   
 🔹🔹🔹🔹🔹 🔹🔹🔹🔹

*_السؤال :_*
     *میں ایک مقدار قیمت کا مالک ہوں تو زکوٰۃ چاندی کے اعتبار سے نکالنی ہوگی یا سونے کے اعتبار سے، براہ کرم جواب دیکر عنداللہ ماجور ہو؟*


*========================*
                  *_حامدًاومصلّیاًومسلّماً :_*
*_أما بعد :_*
 *_الجواب وبالله التوفيق_*

       *اگر کوئی شخص اتنی زیادہ قیمت کا مالک ہو کہ قیمت چاندی اور سونا دونوں اعتبار سے نصاب زکوٰۃ کو پہنچ رہی ہو تو ایسے شخص کے لئے اختیار ہے کہ وہ یا تو چاندی کے اعتبار سے زکوٰۃ نکالے یا سونے کے اعتبار سے ،سونا اور چاندی دونوں اعتبار سے زکوٰۃ نکالنا جائز ہے، اسی طرح جس کے پاس قیمت اتنی ہو کہ کسی ایک نصاب کو پہنچ رہی ہو مثلاً چاندی کے اعتبار سے نصاب زکوٰۃ ہو رہا ہو تو ایسے شخص کے لئے اختیار ہے کہ وہ یا تو چاندی کے اعتبار سے زکوٰۃ نکالے یا سونے کا نصاب ہونے کا انتظار کرے،یعنی چاندی کے اعتبار سے زکوٰۃ نکالنا یا سونے کا نصاب ہونے تک انتظار کر کے سونے کے نصاب کے اعتبار سے نکالنا دونوں جائز ہے.*
     *البتہ چونکہ چاندی کے اعتبار سے زکوٰۃ نکالنے میں فقراء کا فائدہ زیادہ ہے اور ذمہ داری سے بری ہونا بھی پایا جاتا ہے اس لئے احتیاطاً چاندی کے اعتبار سے نکالنا بہتر ہے.*



          💎 *_واللہ اعـــلـــم بالصواب_*💎
   ➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖ ➖
*أصحاب فقہ المنھجی فرماتے ہیں :*
   *ويبدو من التحقيق التاريخي أن قيمة مائتي درهم من الفضة كانت تساوي في صدر الإسلام عشرين مثقالا من الذهب، وعلى هذا الأساس كان كل منهما نصابا لوجوب الزكاة.*
*ثم إن التفاوت طرأ على قيمتها فيما بعد، بسبب اختلاف قيمة الذهب، فأصبحت قيمة عشرين مثقالا من الذهب تزيد كثيرا على قيمة مائتي درهم من الفضة، كما هو الواقع الآن.*
*وعلى كل: فإن الذي يملك أوراقا نقدية، له أن يعتبرها عوضا عن ذهب، فلا يتعلق حق الزكاة بها حتى تبلغ قيمة ستة وتسعين غراما من الذهب. وله إذا شاء أن يعتبرها عوضا عن فضة، فتتعلق بها الزكاة، بمجرد أن يبلغ ما في ملكة منها قيمة ستمائة واثنين وسبعين غراما.*
*والاحتياط في الدين أن يأخذ بما هو أصلح للفقير، ويقدرها بالأقل قيمة، حتى يكون على يقين من براءة ذمته عند الله عز وجل،*
*(الفقه المنهجي :٣٢/٢)*
             
 
✅ *أيده : مفتی قاضی محمد حسین ماہمکر ،مفتی فیاض احمد برمارے، مفتی فرید احمد ہرنیکر، مفتی محمد زید پٹھو*

📖 ✒ *کتبه وأجابه : محمد اسجد ملپا*

     📤 *مسائل دوسروں تک پہنچانا صدقہ جاریہ ہے* 📤
*_~- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -~_*


🔰 *فقھی مسائل شافعی إدارہ رضیة الأبرار بھٹکل*


*ہمارے پوسٹس اور فقھی مسائل شافعی جاننے کے لیے کلک کریں*
https://fiqhimasailshafai.blogspot.in
*ہمارے چینل میں شریک ہونے کے لئے کلک کریں*👇🏻
https://t.me/fiqhimasayilshafayi
*واٹس آپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے :*
8095578351

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں