اتوار، 3 جون، 2018

استعمال کی نیت سے بنائے ہوئے زیورات پر زکوٰۃ نہیں ہے

🌴🍃 *بِسْــمِ اللهِ الرَّحْـمـنِ الرَّحِــيـْم*  🍃🌴

                  📚 *فقھی مسائل( شافعی )*📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
                          📁 *سوال نمبر : ٧٣*📁
   
 🔹🔹🔹🔹🔹 🔹🔹🔹🔹

*_السؤال  :_*

*میرے پاس ایسے زیورات ہیں جس کا استعمال میں کسی پروگرام یا کسی خاص موقع پر ہی کرتی ہوں کیا ایسے زیورات پر زکوة ہے؟*


*========================*
                  *_حامدًاومصلّیاًومسلّماً :_*
*_أما بعد :_*
 *_الجواب وبالله التوفيق_*

*عورتیں جس مقدار میں استعمال کے لیے زیورات بناتی ہیں یعنی وہ زیورات عرفاً اسراف میں شامل نہ کئے جاتے ہوں تو ایسے زیورات بنانا اور پہننا جائز ہے اور استعمال کی نیت سے بنائے ہوئے زیورات پر زکوة بھی واجب نہیں ہوگی چاہے وہ ان زیورات کا استعمال کثرت سے کرتی ہوں یا نہ کرتی ہوں، لہذا جب وہ پہننے کی نیت سے بنائی ہے تو کسی خاص پروگرام یا کسی خاص موقع پر ہی استعمال کرتی ہوں تب بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی لیکن شرط یہ ہے کہ یہ زیورات اسراف میں داخل نہ ہوں .*
    *اور اگر پہننے کی نیت نہ ہو بلکہ جمع کرنے کی نیت ہو تو اس صورت میں زکوٰۃ واجب ہوگی.*
    *جس زیور میں عرفاً اسراف ہو تو اس کا پہننا جائز نہیں ہے اور اسکی پوری زکوة واجب ہوگی نہ کہ صرف زائد مقدار کی.*



          💎 *_واللہ اعـــلـــم بالصواب_*💎
   ➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖ ➖
*علامہ تقی الدین حسینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :*
*ونحن نسلم أن ما فيه سرف يحرم لبسه وتجب فيه الزكاة وفي هذا الحديث فائدة وهو قول أصحابنا الأصوليين إن وقائع الأعيان لا تعم ثم إذا وجبت الزكاة في الحلى إما على قول الذي يوجب الزكاة أو فيما فيه السرف كالخلخال أو السوار الثمين الذي زنته مائتا دينار أو اختلفت قيمته ووزنه بأن كان وزنه مائتين وقيمته ثلثمائة اعتبرت القيمة على الصحيح.*
*(کفاية الأخيار :١٨٢/١)*
*علامہ نووی جاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :*
*ولا زكاة في حلي مباح) كالحلي من ذهب أو فضة للبس امرأة (ولو) اتخذه بلا قصد أو قصد لإعارة أو (لإجارة) لها إلا إن أسرفت كخلخال وزن مجموع فردتيه مائتا مثقال مثلا فلا يحل لها وتجب زكاته.*
*(نهاية الزين :١٧٠/١)*
...…………………………م
*ﻭﻟﻢ ﻳﺮﺗﺾ اﻷﺫﺭﻋﻲ اﻟﺘﻘﻴﻴﺪ ﺑﺎﻟﻤﺎﺋﺘﻴﻦ ﺑﻞ اﻋﺘﺒﺮ اﻟﻌﺎﺩﺓ ﻓﻘﺪ ﺗﺰﻳﺪ ﻭﻗﺪ ﺗﻨﻘﺺ*
*(تحفة المحتاج : ٢٨٠/٣)*
*لا زكاة في الحلي*
*ويستثني من النوع الثالث الحليي المباح، فلا زكاة فيه، كما إذا كان للمرأة حلى من ذهب أو فضة، ولم يكن بالغا من الكثرة إلى حد السرف في عرف الناس،*
*(الفقه المنهجي :٢٣/٢)*
*وحلي النساء الذي بالغن في الإسراف فيه بأن بلغ مئتي مثقال (حوالي 850 غم)*
*(الفقه الإسلامي وأدلته :١٨٢٧/٣)*
             
 
✅ *أيده : مفتی محمود مومن، مفتی فیاض احمد برمارے*

📖 ✒ *کتبه وأجابه  : محمد اسجد ملپا*

     📤 *مسائل دوسروں تک پہنچانا صدقہ جاریہ ہے* 📤
*_~- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -~_*


🔰  *فقھی مسائل شافعی إدارہ رضیة الأبرار بھٹکل*


*ہمارے پوسٹس اور فقھی مسائل شافعی جاننے کے لیے کلک کریں*
https://fiqhimasailshafai.blogspot.in
*ہمارے چینل میں شریک ہونے کے لئے کلک کریں*👇🏻
https://t.me/fiqhimasayilshafayi
*واٹس آپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے :*
8095578351

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں