ہفتہ، 2 دسمبر، 2017

سمندر میں غائب شخص پر نماز جنازہ کی اجازت ہے

🌴🍃 *بِسْــمِ اللهِ الرَّحْـمـنِ الرَّحِــيـْم*  🍃🌴

              📚 *فقھی مسائل( شافعی )*📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
                         📁 *سوال نمبر : ٩٣*📁
   
 🔹🔹🔹🔹🔹 🔹🔹🔹🔹

*_السؤال  :_*
 *ہمارا ایک بچہ پانی جہاز میں کام کرتا تھا اب یمن سے ہم کو خبر آئی کہ آپ کا بچہ غائب ہوگیا ہے تو کیا ہم نماز جنازہ پڑھے یا نہ پڑھے ؟*
*(المستفتی : عدنان پٹھان مہاڈ رائیگڈھ)*


*========================*
                  *_حامدًاومصلّیاًومسلّماً :_*
*_أما بعد :_*
 *_الجواب وبالله التوفيق_*

*نماز جنازہ کے صحیح ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ میت کو نماز سے پہلے غسل ممکن ہونے کی صورت میں غسل دے اور غسل دشوار ہونے کی صورت میں تیمم کرائے. طہارت سے پہلے نماز جنازہ درست نہیں. اس لیے اگر کوئی کنویں، ندی، دریا وغیرہ میں گرجائے اور میت کا نکالنا دشوار ہو یا میت مفقود ہو تو اس صورت میں معتمد قول کے مطابق میت کو طہارت نہ دینے کی وجہ سے نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی.*       
     *البتہ فقہاء شوافع میں سے بعض فقھاء کا کہنا ہے کہ طہارت کی شرط کا اعتبار قدرت کے وقت کیا جائے گا اور مؤمن کو جو حکم ہو اس کو جہاں تک ہوسکے بجالانا ضروری ہے اور غسل یا تیمم دشوار ہونے کی صورت میں نماز جنازہ ممکن ہے لہذا ممکن صورت پر عمل کیا جائے گا نیز نماز جنازہ سے مقصود میت کے لیے دعا اور سفارش کرنا ہوتا ہے. اس لیے ایسی میت پر بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؛ تاکہ گھر والوں کو بھی تسلی ہو.*
     *لہذا مذکورہ بالا سوال میں بھی گھر والوں کو میت کی فقط خبر ملی ہے اور میت غائب ہے اور بعض فقھاء نے گھر والوں کی تسلی کے لیے ایسی میت پر بھی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے اس لیے ایسی میت پر بھی نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے*
*علامہ خطیب شربینی رح فرماتے ہیں:*
  *(لم يصل عليه) لفوات الشرط كما نقله الشيخان عن المتولي وأقراه. وقال في المجموع لا خلاف فيه. قال بعض المتأخرين: ولا وجه لترك الصلاة عليه؛ لأن الميسور لا يسقط بالمعسور، لما صح «واذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم» ؛ ولأن المقصود من هذه الصلاة الدعاء والشفاعة للميت وجزم الدارمي وغيره أن من تعذر غسله صلي عليه. قال الدارمي: وإلا لزم أن من أحرق فصار رمادا أو أكله سبع لم يصل عليه ولا أعلم أحدا من أصحابنا قال بذلك، وبسط الأذرعي الكلام في المسألة، والقلب إلى ما قاله بعض المتأخرين أميل، لكن الذي تلقيناه عن مشايخنا ما في المتن*
*( مغنی المحتاج ٥٠/٢)*

*(فإن مات بهدم ونحوه) كوقوعه في بئر أو بحر عميق (وتعذر إخراجه وغسله أو تيممه لم يصل عليه) لانتفاء شرطها، وهذا هو المعتمد خلافا لجمع من المتأخرين حيث زعموا أن الشرط إنما يعتبر عند القدرة لصحة صلاة فاقد الطهورين بل وجوبها، إذ يمكن رده بأن ذاك إنما هو لحرمة الوقت الذي حد الشارع طرفيه ولا كذلك هنا*
*(نهاية المحتاج :٢٥/٣)*
*(لم يصل عليه) هذا هو المعتمد خلافا لجمع من المتأخرين حيث زعموا أن الشرط إنما يعتبر إلخ...والقلب إلى ما قاله بعض المتأخرين أميل لكن الذي تلقيناه عن مشايخنا ما في المتن اهـ وينبغي تقليد ذلك الجمع لا سيما في الغريق على مختار الرافعي فيه تحرزا عن إزراء الميت وجبرا لخاطر أهله*
*(حواشی الشروانی وابن قاسم العبادي :١٨٩/٣)*
 
                     💎 *_واللہ اعـــلـــم بالصواب_*💎
✅ *ايده : مفتی رفیق پورکر ،مفتی قاضی حسین ماہمکر، مفتی فرید ہرنیکر، مفتی فیاض احمد برمارے*
📖 ✒ *کتبه واجابه : محمد اسجد ملپا*

     📤 *مسائل دوسروں تک پہنچانا صدقہ جاریہ ہے* 📤
*_~- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -~_*


🔰  *فقھی مسائل شافعی إدارہ رضیة الأبرار بھٹکل*



*ہمارے پوسٹس اور فقھی مسائل شافعی جاننے کے لیے کلک کریں*
https://fiqhimasailshafai.blogspot.in/2017/12/blog-post_2.html?m=1

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں