اتوار، 10 دسمبر، 2017

صرف قرآنی آیات اسکرین پر ظاہر ہونے کی صورت میں موبائل اور اسکرین کو چھونا حرام ہے

🌴🍃 *بِسْــمِ اللهِ الرَّحْـمـنِ الرَّحِــيـْم*  🍃🌴

                  📚 *فقھی مسائل( شافعی )*📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
                         📁  *مسئلہ نمبر :٢٣*  📁
   
 🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
09/12/17


  ✒📚 *محض قرآنی آیات اسکرین پر ظاہر ہونے کے متعلق ایک وضاحتی کلام* 📚✒


*_حامدًاومصلّیاًومسلّماً :_*
*_أما بعد :_*
 🔹 *چند روز قبل ہمارا فقھی مسائل (شافعی)سوال نمبر ٩٩ کے تحت موبائل فون اسکرین پر محض قرآنی آیات نمایاں ہونے کی صورت میں محدث شخص کے لیے موبائل فون اور اسکرین کو چھونے کی حرمت پر فتوی شائع ہوا تھا، دوسرے روز فقھی مسائل شافعی سوال نمبر کے ساتھ تین صفحہ پر مشتمل اردو میں بغیر نام ودستخط کے کچھ تحریر دیکھنے کو ملی اور یقینی طور پر لکھنے والے کا پتہ نہ چل سکا، چونکہ اس تحریر میں فقھی مسائل شافعی کے نام کے ساتھ لکھا گیا ہے اور اس میں کچھ وضاحت طلب باتیں بھی لکھی گئی ہیں اس لیے مختصراً کچھ لکھنا مناسب معلوم ہوا.*🔹



*قرآن مجید اللہ تبارک و تعالٰی کی بابرکت کتاب ہے جس میں اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنا تعارف، دین اسلام، شریعت کے احکام اور انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات اور اپنے بندوں کی رہبری کی ہے، جس کی عظمت کرنا ہر شخص پر لازم ہے اور اس کی بے حرمتی اور توہین کرنا جائز نہیں، چونکہ قرآن مجید کو بلاوضو چھونا اس کی حرمت کے خلاف ہے اس وجہ سے فقھاء رح نےقرآن مجید کو چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری قرار دیا ہے اور قرآن مجید کو بلاوضو چھونے کو تمام ائمہ نے حرام قرار دیا ہے.*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :*
*أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا يمس القرآن إلا طاهر.*
*( المعجم الکبیر للطبرانی :١٣٠٣٩،المعجم الصغير :١١٦٢،سنن الدار قطنی :٤٣٧،رجاله موثقون، مجمع الزوائد :١٥١٢،قال المناوی :إسناده صحيح )*

*"لا تمس القرآن إلا وأنت طاھر"*
*( المستدرک للحاكم :٦٠٥١،ھذا حدیث صحیح الإسناد، وقال الذھبی :صحیح)*

*علامہ نووی رح فرماتے ہیں :*
     *يحرم على المحدث مس المصحف وحمله سواء إن حمله بعلاقته أو في كمه أو على رأسه وحكى القاضي حسين والمتولي وجها أنه يجوز حمله بعلاقته وهو شاذ في المذهب وضعيف قال أصحابنا وسواء مس نفس الاسطر أو ما بينهما أو الحواشي أو الجلد فكل ذلك حرام وفي مس الجلد وجه ضعيف أنه يجوز وحكى الدارمي وجها شاذا بعيدا أنه لا يحرم مس الجلد ولا الحواشي ولا ما بين الاسطر ولا يحرم الانفس المكتوب والصحيح الذى قطع به الجمهور*
*(المجموع شرح المهذب :٦٧/٢)*
==========================
🔸 *معارض :*
   *گزشتہ کل فقھی مسائل (شافعی) سوال نمبر ٩٩ کے جواب میں جو مسئلہ امام نووی رح کے حوالے سے پیش کیا گیا وہ عصر حاضر کے علماء کی آراء کے معارض ہے بلکہ مؤلف کے قول "والمراد بالمصحف کل ما کتب فیہ شیئ من القرآن بقصد الدراسة" کے بھی؛ کیونکہ موبائل دراسة استعمال نہیں کیا جارہا ہے.*
🔹 *وضاحت :*
*"فقھی مسائل (شافعی)"*
*اس عنوان سے ہی واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ مسئلہ شوافع کے اعتبار سے ہے نہ کہ احناف، حنابلہ اور غیر مقلد علماء کے تحت ہے لہذا غیر شوافع عصر حاضر کے علماء کے کلام اور تحریر سے فقھی مسائل شافعی کے شافعی مسئلہ پر اعتراض کرنا اور فقھی عبارت کے مقابل پیش کرنا سمجھ سے باہر معلوم ہوتا ہے.*
*معارض کا کہنا ہے کہ مسئلہ امام نووی رح کے قول والمراد... کے بھی معارض ہے.*
*ان کا یہ کہنا، ہماری المجموع کی پیش کی ہوئی عبارت مکمل اور غور سے نہ پڑھنے کی دلیل ہے.*
   *امام نووی رح اپنی کتاب المجموع میں مستقل فرع قائم کر کے اس حکم کو بیان کیا ہے جس میں دراسة وغیرہ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے.*
*ملاحظہ ہو :*
*إذا كتب القرآن في لوح فله حكم المصحف فيحرم مسه وحمله على البالغ المحدث هذا هو المذهب الصحيح وبه قطع الأكثرون.* *(المجموع ٧٠/٢)*

*اگر ان کی مراد نووی سے نووی جاوی ہو تب بھی ہمارے مسئلہ کے معارض نہیں بلکہ یہ عبارت ہماری تائید در تائید ہے.*
*معارض کا کہنا ہے :*
 *"کیونکہ موبائل دراسة استعمال نہیں کیا جارہا ہے" گویا ان کا کہنا ہے کہ دراسة کی صورت میں تختی کو ہاتھ لگانا حرام ہے اور موبائل فون میں قرآن دراسة کے لیے نہیں اس لئے جائز ہے".*
*ان کے اس قول سے یہ بات لازم آتی ہے کہ دراسة کے لیے قرآن لکھا جائے تو چھونا حرام اور دراسة کے علاوہ ہو تو جائز ہے جبکہ کسی بھی کتاب میں اس طرح تفریق نہیں ملتی بلکہ جہاں قرآن کی آیت لکھی جائے چاہے دراسة کے لیے ہو یا غیر دراسة بہرحال اسکو چھونا حرام ہوجاتا ہے ،اور علامہ نووی جاوی رح جو دراسة لکھا ہے وہ بطور علت بیان نہیں فرمایا بلکہ بطور مثال سمجھا رہے ہیں کہ اگر کسی تختی پر سکھانے کے غرض سے قرآنی آیت لکھی جائے تو اس تختی کو چھونا حرام ہوجاتا ہے ،جب دراسة کے لیے لکھی گئی تختی کا یہ حکم ہو تو محض مصحف کا حکم کیا ہوگا ہر عام شخص بھی اسکو سمجھ سکتا ہے.*
   *لہذا معارض صاحب کا دراسة سے اعتراض کرنا ہمارے مسئلہ کے خلاف نہیں بلکہ ہمارے لکھے گئے مسئلہ کو مزید تقویت پہنچاتا ہے، اور اس سے بدرجہ اولیت حرمت معلوم ہوتی ہے .*
🔸 *معارض :*
*جدید مباحث "القرآن الكريم والتقنيات المعاصر" (قرآن کریم اور جدید ٹیکنالوجی)اس عنوان کے تحت یہ بحث پیش کی گئی ہے کہ جدید الیکٹرانک آلات موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر جسمیں قرآن کریم جمع (فٹ) ہو اسے پڑھنے اور ہاتھ لگانے کا کیا حکم ہے؟*
   *تو مجمع فھد لطباعة المصحف الشريف میں منعقد ندوۃ کا جواب تھا کہ جب تک قرآن کریم جدید مشینی پروگرام میں محفوظ (فٹ) ہے اسے قرآن نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ مکتوب کی صورت میں مکشوف (لکھائی کی شکل میں دکھائی) نہیں دیتا ہے.*
🔹 *وضاحت :*
*معارض کا مجمع... منعقد ندوۃ کا جواب ہمارے مسئلہ کے معارض نہیں ہے بلکہ ہمارے ہی مسئلہ کی تائید کرتا اس طور پر کہ ان کا جواب ہے کہ جب تک قرآن کریم محفوظ ہو گویا اسکرین پر نہ کھولا گیا ہو، اس کی وضاحت ان کے علت بیان کرنے سے بھی معلوم ہوتی ہے لہذا انہوں نے یہ علت بیان کی کہ قرآن مکتوب کی صورت میں مکشوف یعنی لکھائی کی شکل میں دکھائی نہیں دیتا ہے، اور ہم بھی اسی کے قائل ہیں کہ جب تک قرآن مجید کو اسکرین پر نہ کھولا جائے اس وقت تک موبائل فون اور اسکرین کو ہاتھ لگانا جائز ہے، جب قرآن کو اسکرین پر کھولا جائے تو حرام ہوتا ہے، ہمارے مسئلہ میں وضاحت کے ساتھ لکھا گیا تھا "موبائل فون کی اسکرین پر آیات مبارکہ نمایاں اور ظاہر ہورہی ہوں"  تو...*
🔸 *معارض :*
*سابق مدرس مسجد النبوي الشریف شیخ عطیہ سالم رح فرماتے ہیں :موبائل میں جمع قرآن مصحف کے حکم میں نہیں کیونکہ اس میں آیت عارضی طور پر آتی ہے جیسے آئینہ کے سامنے کوئی آیتیں پیش کرے تو آئینہ کو ہاتھ لگانے کیلیے وضو کی ضرورت نہیں باوجود یہ کہ آئینہ میں آیات نظر آرہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ عارضی ہیں اسی طرح موبائل کو چھونا، اس میں لوگوں کی سہولت اور آسانی ہے...*
🔹 *وضاحت :*
 *آئینہ کی مثال دیکر جو بات پیش کی گئی ہے اس آئینہ اور موبائل فون کے آئینہ میں کافی فرق ہوتا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ کسی آیت کو سامنے رکھ کر اس پر شیشہ پیش کیا جائے تو اس شیشہ کو چھونا حرام نہیں، موبائل فون کے علاوہ جو شیشہ رہتا ہے وہ قرآنی آیات سے متصل نہیں رہتا بلکہ الگ رہتا ہے اور موبائل فون کا شیشہ موبائل فون سے متصل رہتا ہے دوسری بات یہ کہ دیگر شیشوں پر انگلی پھیرنے سے ورق پلٹتے نہیں ہے برخلاف موبائل فون کہ شیشہ پر انگلی پھیرنے سے مصحف کا ورق بھی پلٹتا ہے،اور ان کا عارضی کہنا بھی درست نہیں اس لیے کہ موبائل فون کے علاوہ شیشہ کے ہٹانے سے آیت زائل ہوجاتی ہے برخلاف موبائل فون  کہ اس میں اگر کوئی موبائل فون کا اسکرین کور نکال دے تو آیتیں موبائل فون سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ برقرار رہتی ہے.*
 *بھر صورت موبائل فون کا شیشہ موبائل فون سے ہی متصل رہتا ہے اور اسکو حائل شمار کیا جائے تب بھی فقہ شافعی کے اعتبار سے ہاتھ لگانا ممنوع ہے جیسا کہ نھایۃ الزین کی عبارت "ولو بثخین" سے واضح ہوتا ہے.*
 *اور یہ کہنا کہ اس میں لوگوں کے لیے سہولت ہے،یہ تو ایک عجیب بات ہے، سھولت تو موبائل میں محفوظ قرآن کے علاوہ گھروں اور مساجد کے مصحف میں بھی ہونی چاہیے، ایسا کہا جائے تو دین کھلواڑ بن جائے گا*
🔸 *معارض :*
*شیخ عبدالرحمن بن ناصر البراك کہتے ہیں : یہ موبائل وغیرہ آلات جن میں قرآن کریم کی آیات جمع ہوتی ہیں مصحف کے حکم میں نہیں ہے کہ وہاں مصحف کے مانند کتابت نہیں ہے بلکہ وہ ذبذبات (ہوائی حرکت) کی شکل میں ہوتے ہیں جو آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں یہ ثابت حروف وکلمات نہیں کیونکہ إرادة اور چاہت پر وہ ظاہر ہوتے ہیں اور دوسری شیئ کی طرف منتقل ہونے پر ہٹ جاتے ہیں.*
🔹 *وضاحت :*
*واضح رہے کہ موبائل فون میں اکثر جو قرآن مجید کا ایپ آتا ہے وہ اصل قرآن مجید کا ہی اسکین کیا ہوا رہتا ہے اسکو ہوائی ذبذبات کہنا درست نہیں. اور اگر اسکین نہ ہو تب بھی اس کو کتابت ہی شمار کیا جائے گا اس لیے کہ کتابت قلم ہی پر منحصر نہیں کہ قلم سے جو لکھا جائے وہی کتابت ہے اگر ایسا مانا جائے تو موجودہ دور کے تمام جدید آلات سے شائع ہونے والی چیز کو غیر کتابت میں شمار کرنا پڑے گا اور اس کا تو کوئی قائل نہیں.*
 *مزید یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کتابت کی دو قسمیں ہیں.:١) کتابت مستبینہ ٢) کتابت غیر مستبینہ*
*١)کتابت مستبینہ ایسی تحریر جو پڑھی جاسکے.*
*٢) کتابت غیر مستبینہ جو پڑھی نہ جاسکے جیسے کوئی پانی یا ہوا پر کچھ لکھ دے تو اس تحریر کا کوئی اعتبار نہیں اور کتابت مستبینہ یعنی جو تحریر پڑھی جاسکتی ہے ایسی تحریر پر تمام احکام جاری ہوتے ہیں.*
*لہذا موبائل فون کی اسکرین پر جب آیات ظاہر ہوں اسکو باضابطہ تحریر کہا جائے گا ان حروف کو صاف صاف پڑھا جاسکتا ہے بلکہ بعض اوقات کاغذ پر لکھے گئے حروف سے بھی زیادہ صاف نظر آتے ہیں اس لیے وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے.*
*اور یہ کہنا کہ یہ ثابت حروف وکلمات نہیں کیونکہ... الخ، درست نہیں اس لیے کہ جب موبائل فون میں قرآن مجید کا ایپ کھولا جاتا ہے تو قرآن مجید کے حروف اور کلمات ثابت ہی رہتے ہیں، جب تک اسکو منتقل نہ کیا جائے اور پلٹا نہ جائے اس وقت تک نہ خود سے منتقل ہوتے اور نہ ہٹتے ہیں .*
🔸 *معارض :*
*مزید یہ کہ موبائل فون میں صرف قرآن کریم نہیں ہوتا بلکہ بے شمار دیگر اشیاء بھی موجود ہوتی ہیں اس لیے محض موبائل کو کوئی بھی قرآن نہیں کہتا.*
🔹 *وضاحت :*
*ہمارا مسئلہ اس وقت ہے جب موبائل فون کی اسکرین پر آیات مبارکہ ظاہر ہورہی ہوں، مسئلہ یہ نہیں کہ موبائل فون میں قرآنی آیات ہوں لہذا جب موبائل فون کی اسکرین پر محض قرآنی آیات نمایاں ہوں اس وقت اسکرین میں دیگر اشیاء موجود نہیں ہوتیں بلکہ محض قرآنی آیات نمایاں ہوتی ہیں اس کی مثال ایک الماری سے سمجھی جاسکتی ہے جب الماری میں کتابیں اور قرآن مجید ہوں تو اس الماری کو چھونا حرام نہیں ہے اس طرح موبائل فون میں بھی قرآن اور دیگر اشیاء ہوں اور اسکرین پر محض قرآنی آیات نمایاں نہ ہوں تو اس موبائل فون کو بھی چھونا حرام نہیں ہے. جب ایپ کھولا جائے اور اسکرین پر محض قرآنی آیات نمایاں ہوں تب اسکرین پر محض قرآنی آیات ہیں اسکرین پر دیگر اشیاء موجود نہیں ہیں اور ہم اسکرین کو تختی کے مانند شمار کررہے ہیں اور تختی پر قرآنی آیات لکھی جاتی ہیں تو تختی کے ساتھ دیگر متصل چیزوں کو چھونا حرام ہوجاتا ہے جیسا کہ عبارتوں سے یہ مسئلہ واضح ہوچکا ہے.*
🔸 *معارض :*
*سعودیہ عربیہ کے معروف علماء میں شیخ صالح فوزان، عبدالعزیز فوزان، صالح مغامسی فھد بن عبد الرحمن الیحصی وغیرہ عرب علماء موبائل فون کو جس میں قرآن جمع ہوتا ہے مصحف نہیں شمار کرتے بلکہ اس مسئلہ میں کسی دوسرے کی جانب سے موبائل پر قرآن کریم کی آیت ظاہر ہونے پر وضو کی شرط میری نظر سے نہیں گذری.*
🔹 *وضاحت :*
*پہلی بات یہ کہ سعودیہ عربیہ کے علماء ہمارے لیے دلیل نہیں ہے ہمارے لیے ہماری فقہ شافعی کی کتابوں میں صریح عبارتوں کی موجودگی میں دوسرے ائمہ یا سعودیہ عرب کے علماء کی طرف جانے کی کوئی ضرورت نہیں. دوسری بات ان کے لفظ "جمع" سے قرآنی آیات ظاہر نہ ہونا معلوم ہوتا ہے، اور یہ کہنا کہ آیت ظاہر ہونے پر وضو کی شرط میری نظر سے نہیں گذری، تو آپ کا واقف نہ ہونا عدم شرط کی دلیل نہیں بن سکتی.*
🔸 *معارض :*
*اگر یہ حکم موبائل کا ہے تو تمام پوسٹروں، دعوت ناموں کو جن میں قرآن کریم کی کوئی آیت یا بسم اللہ لکھی ہوئی ہو باوضو ہاتھ لگانا ضروری ہوگا کہ، جبکہ کتب تفسیر کو بے وضو چھونے کے جواز پر تمام متفق ہیں.*
🔹 *وضاحت :*
*یہ بات اوپر بھی اور وضاحتی جواب میں بھی لکھی جاچکی ہے کہ ہمارا مسئلہ اس صورت میں جب موبائل کی اسکرین پر محض قرآنی آیات نمایاں ہوں اور پوسٹر، دعوت ناموں میں محض قرآنی آیات نہیں ہوتیں بلکہ قرآن کے علاوہ دیگر چیزیں زائد ہوتی ہیں لہذا اگر موبائل فون میں بھی کوئی دعوت نامہ یا پوسٹر ہو اور اس میں قرآنی آیات کم ہوں اس وقت ہم بھی موبائل فون کو چھونے کے لیے وضو کی شرط کے قائل نہیں ہیں.*
*اور معارض کا مطلق کتب تفسیر کو ہاتھ لگانے کو جائز قرار دینا درست نہیں اس لئے کہ تفسیر میں بھی ہمارے فقھاء کرام نے الفاظِ قرآن کی کمی زیادتی کے فرق کے ساتھ حکم کو بیان کیا ہے لہذا اگر تفسیر میں بھی قرآن کے الفاظ زائد ہوں ایسی تفسیر کو چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے.*
🔸 *معارض :*
*ٹیلی ویژن کی اسکرین پر قرآن کریم کی آیتیں جب پیش کی جاتی ہیں تو کسی نے نہیں کہا کہ بغیر وضو ٹیلی ویژن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں کہ اسے چھونا اور ہاتھ لگانا قرآن کو ہاتھ لگانا ہے.*
🔹 *وضاحت :*
*پہلی بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر صرف قرآنی آیات ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ کسی مسئلہ یا کسی اور چیز کے ضمن ہی آتی ہیں دوسری بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر کوئی قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتا اور اسکو ہاتھ لگانے کی نوبت بھی نہیں آتی، تیسری بات یہ ہے کہ جب قرآنی آیات کم ہوں تو اس صورت میں باوضو ہونا ضروری نہیں ہے. اور اگر زائد ہوں تب بھی اس کو ہاتھ لگانے کا مسئلہ پیش ہی نہیں آتا وہ تو کسی ٹیبل یا کسی اوپری حصہ یا دیوار وغیرہ پر لگائی جاتی ہے اور اسکو کوئی ہاتھ میں لیکر بیٹھتا تو نہیں برخلاف موبائل فون، یہ موجودہ دور میں انسان کا جزء لاینفک بن گیا ہے اس لیے موبائل فون کا مسئلہ لکھا جاتا ہے .*

   🔰 *بہر حال جب موبائل فون کی اسکرین پر محض قرآنی آیات نمایاں اور ظاہر ہورہی ہوں جیسا کہ موجودہ دور میں موبائل فون میں مستقل قرآن کا ایپ آتا ہے اس کو کھول دیا جائے اور موبائل فون کی اسکرین پر محض قرآنی آیات نمایاں ہوں یا ایپ کے علاوہ صرف قرآنی آیات اسکرین پر ظاہر ہوں یا اسکرین پر قرآن کے علاوہ کوئی دوسری چیز کھول دی جائے اور اس میں قرآنی آیات دیگر چیزوں سے زائد ہوں تو اس وقت موبائل فون کی اسکرین کو تختی کے حکم میں مانتے ہوئے پورا موبائل فون اور اسکرین مصحف کے حکم میں چلا جائے گا اور بلاوضو چھونا حرام ہوگا.*

*نوٹ :*
*اگر ہمارے اس وضاحتی کلام میں معارض صاحب کے حق میں غلطی سے کچھ تنقیص یا تکلیف پہنچانے والا کوئی جملہ صادر ہوا ہو تو ہم آپ سے معافی کے طالب ہیں.*

🤲🏻 ```ربنا لا تؤاخذنا إن نسینا أو أخطأنا.```  *آمین*

 
                     💎 *_واللہ اعـــلـــم بالصواب_*💎

📖 ✒ *کتبه  :  محمد اسجد ملپا*

     📤 *مسائل دوسروں تک پہنچانا صدقہ جاریہ ہے* 📤
*_~- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -~_*


🔰  *فقھی مسائل شافعی إدارہ رضیة الأبرار بھٹکل*



*ہمارے پوسٹس اور فقھی مسائل شافعی جاننے کے لیے کلک کریں*
http://fiqhimasailshafai.blogspot.in
"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" ""

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں