بدھ، 26 ستمبر، 2018

صاحب کمپیوٹر کی اجازت کے بغیر وائرس داخل کرنا صحیح نہیں ہے

🌴🍃 *بِسْــمِ اللهِ الرَّحْـمـنِ الرَّحِــيـْم* 🍃🌴

                  📚 *فقھی مسائل( شافعی )*📚
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
                          📁 *سوال نمبر : ١٥٨*📁
   
 🔹🔹🔹🔹🔹 🔹🔹🔹🔹

*_السؤال :_*
     *دوسروں کے کمپیوٹر میں فحش چیزیں ختم کرنے کے لئے صاحب کمپیوٹر کی اجازت کے بغیر وائرس داخل کرنے کا حکم کیا ہے؟*


*========================*
                  *_حامدًاومصلّیاًومسلّماً :_*
*_أما بعد :_*
 *_الجواب وبالله التوفيق_*
 
      *کسی شخص کا مکمل کھیل کود کے سامان اور مکمل فحش پر مشتمل چیزوں کو ضائع کرنا جائز ہے اور اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی اس لئے کہ اس کا استعمال حرام ہے.*
*اور اگر کوئی چیز ایسی ہو کہ وہ لغو کے ساتھ اچھے چیز کے لئے بھی کام آتی ہو تو اگر وہ چیز ایسی ہو کہ فقط لغو کو ختم کیا جاسکتا ہے تو اس لغو کو ختم کیا جائے گا اور اگر لغو کے ساتھ لغو کے علاوہ چیز کا ضائع کرنا لازم آتا ہو تو مکمل چیز کو ضائع کرنا درست نہیں ہے بلکہ اتنی چیز ختم کر دی جائے گی کہ حرام کے استعمال کے وہ قابل نہ رہے اور اگر اس طرح بھی ممکن نہ ہو تو اس کو ضائع کرنا درست نہیں ہے، ضائع کرنے کی صورت میں اس پر وہ چیز دینی لازمی ہوگی.*
   *اس وضاحت کو سامنے رکھ کر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی کے کمپیوٹر سے فحش چیز ختم کرنے کے لئے پورے کمپیوٹر میں وائرس کا داخل کرنا صحیح نہیں ہے اس لئے کہ کمپیوٹر میں فقط فحش چیزیں موجود نہیں ہوتیں اسی طرح کمپیوٹر فقط فحش کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا لہذا فحش کو نکالنے کے لئے کسی کے کمپیوٹر میں وائرس داخل کرنا صحیح نہیں ہے اگر کوئی وائرس ڈالتا ہو تو جتنا نقصان ہوا ہے اتنا خرچہ وائرس داخل کرنے والے کے ذمہ لازم ہوگا. یہ شرعی حکم ہے ہاں البتہ ملکی قوانین کے مطابق یہ جرم ہے اور اس کی اجازت نہیں ہے*
     

          💎 *_واللہ اعـــلـــم بالصواب_*💎
   ➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖ ➖

*"ﻭﻟﻮ ﻛﺴﺮ ﻟﻪ ﻃﻨﺒﻮﺭا ﺃﻭ ﻣﺰﻣﺎﺭا ﺃﻭ ﻛﺒﺮا ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﻫﺬا ﺷﻲء ﻳﺼﻠﺢ ﻟﻐﻴﺮ اﻟﻤﻼﻫﻲ ﻓﻌﻠﻴﻪ ﻣﺎ ﻧﻘﺺ اﻟﻜﺴﺮ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻳﺼﻠﺢ ﺇﻻ ﻟﻠﻤﻼﻫﻲ ﻓﻼ ﺷﻲء ﻋﻠﻴﻪ"*
*(الأم : ٢٢٥/٤)*
*"ﺁﻻﺕ اﻟﻤﻼﻫﻲ ﻛﺎﻟﺒﺮﺑﻂ ﻭالطنبور ﻭﻏﻴﺮﻫﻤﺎ، ﻭﻛﺬا اﻟﺼﻨﻢ ﻭاﻟﺼﻠﻴﺐ، ﻻ ﻳﺠﺐ ﻓﻲ ﺇﺑﻄﺎﻟﻬﺎ ﺷﻲء، ﻷﻧﻬﺎ ﻣﺤﺮﻣﺔ اﻻﺳﺘﻌﻤﺎﻝ، ﻭﻻ ﺣﺮﻣﺔ ﻟﺘﻠﻚ اﻟﺼﻨﻌﺔ. ﻭﻓﻲ اﻟﺤﺪ اﻟﻤﺸﺮﻭﻉ ﻓﻲ ﺇﺑﻄﺎﻟﻬﺎ ﻭﺟﻬﺎﻥ. ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ: ﺗﻜﺴﺮ ﻭﺗﺮﺿﺾ ﺣﺘﻰ ﺗﻨﺘﻬﻲ ﺇﻟﻰ ﺣﺪ ﻻ ﻳﻤﻜﻦ اﺗﺨﺎﺫ ﺁﻟﺔ ﻣﺤﺮﻣﺔ ﻣﻨﻬﺎ ﻻ اﻷﻭﻟﻰ ﻭﻻ ﻏﻴﺮﻫﺎ. ﻭﺃﺻﺤﻬﻤﺎ: ﻻ ﺗﻜﺴﺮ اﻟﻜﺴﺮ اﻟﻔﺎﺣﺶ ﻟﻜﻦ ﺗﻔﺼﻞ. ﻭﻓﻲ ﺣﺪ اﻟﺘﻔﺼﻴﻞ ﻭﺟﻬﺎﻥ. ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ: ﻗﺪﺭ ﻻ ﻳﺼﻠﺢ ﻣﻌﻪ ﻟﻻﺳﺘﻌﻤﺎﻝ اﻟﻤﺤﺮﻡ، ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺭﻓﻊ ﻭﺟﻪ اﻟﺒﺮﺑﻂ ﻭﺑﻘﻲ ﻋﻠﻰ ﺻﻮﺭﺓ ﻗﺼﻌﺔ ﻛﻔﻰ، ﻭاﻟﺜﺎﻧﻲ: ﺃﻥ ﻳﻔﺼﻞ ﺇﻟﻰ ﺣﺪ ﺣﺘﻰ ﻟﻮ ﻓﺮﺽ اﺗﺨﺎﺫ ﺁﻟﺔ ﻣﺤﺮﻣﺔ ﻣﻦ ﻣﻔﺼﻠﻬﺎ ﻟﻨﺎﻝ اﻟﺼﺎﻧﻊ اﻟﺘﻌﺐ اﻟﺬﻱ ﻳﻨﺎﻟﻪ ﻓﻲ اﺑﺘﺪاء اﻻﺗﺨﺎﺫ، ﻭﻫﺬا ﺑﺄﻥ ﻳﺒﻄﻞ ﺗﺄﻟﻴﻒ اﻷﺟﺰاء ﻛﻠﻬﺎ ﺣﺘﻰ ﺗﻌﻮﺩ ﻛﻤﺎ ﻛﺎﻧﺖ ﻗﺒﻞ اﻟﺘﺄﻟﻴﻒ، ﻭﻫﺬا ﺃﻗﺮﺏ ﺇﻟﻰ ﻛﻼﻡ اﻟﺸﺎﻓﻌﻲ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻭﺟﻤﺎﻫﻴﺮ اﻷﺻﺤﺎﺏ. ﺛﻢ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﻧﺎﻩ ﻣﻦ اﻻﻗﺘﺼﺎﺭ ﻋﻠﻰ ﺗﻔﺼﻴﻞ اﻷﺟﺰاء، ﻫﻮ ﻓﻴﻤﺎ ﺇﺫا ﺗﻤﻜﻦ اﻟﻤﺤﺘﺴﺐ ﻣﻨﻪ، ﺃﻣﺎﺇﺫا ﻣﻨﻌﻪ ﻣﻦ ﻓﻲ ﻳﺪﻩ ﻭﺩاﻓﻌﻪ ﻋﻦ اﻟﻤﻨﻜﺮ ﻓﻠﻪ ﺇﺑﻄﺎﻟﻪ ﺑﺎﻟﻜﺴﺮ ﻗﻄﻌﺎ. ﻭﺣﻜﻰ اﻹﻣﺎﻡ اﺗﻔﺎﻕ اﻷﺻﺤﺎﺏ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻗﻄﻊ اﻷﻭﺗﺎﺭ ﻻ ﻳﻜﻔﻲ ﻷﻧﻬﺎ ﻣﺠﺎﻭﺭﺓ ﻟﻬﺎ ﻣﻨﻔﺼﻠﺔ. ﻭﻣﻦ اﻗﺘﺼﺮ ﻓﻲ ﺇﺑﻄﺎﻟﻬﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺪ اﻟﻤﺸﺮﻭﻉ، ﻓﻼ ﺷﻲء ﻋﻠﻴﻪ. ﻭﻣﻦ ﺟﺎﻭﺯﻩ، ﻓﻌﻠﻴﻪ اﻟﺘﻔﺎﻭﺕ ﺑﻴﻦ ﻗﻴﻤﺘﻬﺎ ﻣﻜﺴﻮﺭﺓ ﺑﺎﻟﺤﺪ اﻟﻤﺸﺮﻭﻉ ﻭﺑﻴﻦ ﻗﻴﻤﺘﻬﺎ ﻣﻨﺘﻬﻴﺔ ﺇﻟﻰ اﻟﺤﺪ اﻟﺬﻱ ﺃﺗﻰ ﺑﻪ. ﻭﺇﻥ ﺃﺣﺮﻗﻬﺎ ﻓﻌﻠﻴﻪ ﻗﻴﻤﺘﻬﺎ ﻣﻜﺴﻮﺭﺓ اﻟﺤﺪ اﻟﻤﺸﺮﻭﻉ."*
*(روضة الطالبين : ١٨/٥)*
             
  📖 ✒ *کتبه وأجابه : محمد اسجد ملپا*

✅ *أيده : مفتی فیاض احمد برمارے، مفتی فرید ہرنیکر، مفتی عبدالرحیم کیرلوی*


     📤 *مسائل دوسروں تک پہنچانا صدقہ جاریہ ہے* 📤
*_~- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -~_*


🔰 *فقھی مسائل شافعی إدارہ رضیة الأبرار بھٹکل*


*ہمارے پوسٹس اور فقھی مسائل شافعی جاننے کے لیے کلک کریں*
https://fiqhimasailshafai.blogspot.com
*ہمارے چینل میں شریک ہونے کے لئے کلک کریں*👇🏻
https://t.me/fiqhimasayilshafayi
*واٹس آپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے کلک کریں 👇🏻:*
https://chat.whatsapp.com/AKLcJS6UUg01dgUmOsE9cb

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں